ایسٹ انڈیا کمپنی کی خود کے
لیے بنائی گئی ریاست
”کیا حکومت ہم سے خوفزدہ ہے؟ یا ہم حکومت سے ڈرتے ہیں؟ جب عوام حکومت سے
خوفزدہ ہوتے ہیں، یہ جبر کی فتح ہوتی ہے۔ مرکزی حکومت ہماری خادم ہے، مالک نہیں۔“
تھامس جیفرسن
اٹھارویں صدی کے وسط میں یورپ میں جدید ریاست کا وجود ابھر رہا تھا جبکہ
ہندوستان میں ابھی تک قدیم طرز کی بادشاہت سانسیں لے رہی تھی جہاں حکمرانوں کی
ذاتی خواہشات آئین و قانون سے زیادہ محترم تھیں۔ اس پس منظر میں 1757 میں دُنیا نے
ایک حیران کُن اور نا قابلِ یقین واقعہ دیکھا۔ ہزاروں میل دور ایک چھوٹے سے غریب
اور پسماندہ مُلک کی ایک تجارتی کمپنی نے دولت سے مالا مال ایک بڑے ملک کو زیر کر
لیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے، جو لندن کے ایک چھوٹے سے دفتر میں قائم ایک غیر منظم
مشترکہ سرمایہ کمپنی تھی اور جو ہندوستان میں ایک ذہنی مفلوج، سماج دشمن رابرٹ
کلائیو کے زیرِ انتظام تھی، ہندوستان کے امیر ترین حصے، مغل بادشاہت کے صوبے بنگال
پر غلبہ حاصل کر لیا۔
ایسٹ انڈیا
کمپنی کے مقاصد بالکل واضح تھے، بنیادی طور پر اپنے شراکت داروں کے لیے منافع، جس
میں کسی اخلاقی اصول کی
پاسداری اور کسی قسم کے تردّد کو چنداں اہمیت نہ تھی۔
نسل پرستانہ نظریات رائج ہوئے۔ مقامی باشندوں کو فی الحقیقت کم تر اور غیر تہذیب
یافتہ لوگوں کے طور پرسمجھا گیا اور ان کے ساتھ اسی رویے کے تحت سلوک بھی کیا گیا۔
یہ کمپنی کسی ریاست کو چلانے کے لیے قائم نہیں کی گئی تھی اور وہ بھی اتنی بڑی
ریاست۔ اس خطے کے باشندوں کی فلاح و بہبود اور خوشحالی یا اُن پر اس کی
پالیسیوں کے دور رس اثرات کو کبھی بھی اہم نہیں سمجھا گیا۔ شئیر ہولڈرز کے لیے کسی
بھی قیمت پر بے دریغ منافع کا حصول کمپنی کے وجود کا واحد مقصد تھا۔
ان اداروں کو معقول تنخواہیں دی جاتی تھیں اور ان کے
عملے کے گرد ایک مخصوص ناقابلِ تسخیر ہالہ بنا دیا گیا تھا۔ ان جابرانہ اداروں کو
ایک مخصوص مقام عطا کرتے ہوئے مقامی لوگوں کی خودداری، عزتِ نفس اور قومی وقار کو
منظم طریقے سے پامال کیا گیا۔ انہیں تحقیر
آمیز انداز میں ”نیٹو“ کہا جاتا تھا اور انہیں اس نہج تک کچلا گیا کہ وہ
حقوق اور عزت و احترام کی امید تک نہ کر سکیں جو ایک قومی ریاست اپنے شہریوں کو عطا
کرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ظالمانہ مقاصد کے حصول کے لیے مقامی لوگوں کو ہی
بھرتی کیا گیا اور ان کی طاقت کو انہی کے خلاف استعمال کیا گیا، اگرچہ مقامی
فوجیوں کے ساتھ بھی نسلی امتیاز اور ظلم روا رکھا گیا۔ مقامی باشندوں کو ادارہ
جاتی طور پر کمتر ثابت کیا گیا اور ان کے ذہنوں میں ان کی کمتر حیثیت کے ساتھ ساتھ
انگریزوں کی برتری کا یقین بٹھا دیا گیا۔
اس عظیم ترین محکومی کے اثرات صرف یہیں پر ختم نہیں
ہوئے بلکہ بھرتی کی گئی مقامی افواج کو سامراجی مقاصد کے لیے دُنیا بھر میں
استعمال کیا گیا۔ ان فوجیوں نے افیونی اور گلیپولی جیسی غیر قانونی اور غیر اخلاقی جنگوں میں حصہ
لیا، باوجود اس کے کہ ان فوجیوں کے ساتھ بدسلوکی اور ناروا سلوک کیا جاتا تھا۔
دنیا بھر میں بے شمار مسائل اور مصائب پیدا کرنے کے
ایک سو نوے برس بعد بالآخر سامراجیت زوال پذیر ہوئی اور محکوم ممالک نے آزادی حاصل
کر لی۔
اس عظیم تبدیلی کے دوران بدقسمتی سے نو آزاد ممالک کو
وہی ادارے ورثے میں ملے جو ان پر جبر اور ان کے استحصال کے لیے قائم کیے گئے تھے۔
آزادی کے بعد جب برطانیہ کی جانب سے ان اداروں پر عائد کردہ پابندیاں ختم ہوئیں تو
ان میں سے کچھ ادارے بے قابو ہو گئے اور مزید تباہی اور مسائل کا سبب بنے۔ ان میں
سے کئی اداروں نے خود کو ریاست کا نجات دہندہ اور قوم پرستی و حب الوطنی کا علمبردار
قرار دے کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
نوآبادیاتی اداروں کی مکمل بالادستی نے، جس میں عوام
کے لیے ایک موروثی حقارت شامل تھی، پاکستان کی نئی نویلی ریاست اور اس معاشرے کو
بری طرح نقصان پہنچایا اور بالآخر اسے گھٹنوں کے بل گرا دیا۔ معیشت بدحالی کا شکار
ہے، معاشرہ ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے، ہم بے شمار نہ ختم ہونے والی جنگوں میں الجھے
ہوئے ہیں، تمام ادارے زوال پذیر ہیں، انسانی ترقی کے اشاریے نچلی ترین سطح پر ہیں
اور ہمارے اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔
مختصر یہ کہ پاکستان ایک ایسی ریاست بن چکا ہے جسے
دنیا میں ایک تنہا ریاست کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔
ہمارے کچھ روایتی دوست ممالک نے پاکستانیوں کے لیے ویزوں پر مکمل پابندی عائد کر
دی ہے اور پاکستانی پاسپورٹ کے ساتھ بین الاقوامی سفر ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔
نوجوان نسل، جن کی صلاحیتوں کو ہمیں بہترین ماحول
فراہم کرکے پروان چڑھانا چاہیے تھا، مایوسی کا شکار ہو کر ملک چھوڑنے کی کوششوں
میں مصروف ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ لوگ اب اس ملک کے قیام اور وجود کی
بنیادوں پر سوال اٹھانے لگے ہیں۔
ستتر سال کی آزادی کے بعد اب ہمیں اپنے بیشتر مسائل
کی بنیادی وجوہات کے ساتھ نمٹنا چاہیے جو استعماری، استحصالی
اور بے لگام اداروں کی طاقت اور غلبے کی
صورت میں ہم نے وراثت میں پائیں۔
سب سے پہلے ہمیں یہ یقینی بنانا
ہوگا کہ فوج اور بیوروکریسی عوام کی مرضی کے تابع ہوں۔ عوام کی وہ مرضی جو انتخابات
اور منتخب نمائندوں کے ذریعے بنائے گئے قوانین کے تحت ظاہر ہوتی ہے۔ کڑے نظم و ضبط
کی حامل اور درجہ بہ درجہ مراتب کے اصولوں کے تحت کام کرنے والی تنظیمیں اگر قانون
کے مطابق کام کریں تو وہ ادارے کہلاتی ہیں، لیکن اگر وہ قانون کے خلاف کام کریں تو
وہ گروہ بن جاتی ہیں، جو کہ ایک نہایت ناپسندیدہ صورت حال ہے۔ انہیں یہ باور کرانا
ضروری ہے کہ وہ حکمران نہیں بلکہ ٹیکس ادا کرنے والے عوام اصل مالک ہیں۔ ریاستی ملازمین
کی اس بات پر اجارہ داری ختم ہونی چاہیے کہ وہ قومی مفاد کی تعریف وضع کریں اور محبِ
وطن یا غداروں کی نشان دہی کریں۔ یہ نہ تو ان کا کام ہے اور نہ ہی ان کی صلاحیت۔
نوآبادیاتی دور کے توہین آمیز القابات، جیسے ”بلڈی نیٹوز“ جو بعد میں ”بلڈی سولینز“ میں تبدیل ہوگئے، کا مکمل طور پر خاتمہ ضروری ہے۔ سرکاری
ملازمین کو یہ سکھانا ہوگا کہ شہریوں کی خدمت اور ان کی حفاظت کرنا قابلِ فخر ہے، باعثِ
شرمندگی نہیں۔ عوام کی خدمت ان کے وجود کا واحد مقصد ہونا چاہیے۔
حکومتی نظام میں نوآبادیاتی دور کے دوہرے طبقاتی نظام
کی میراث کو ختم کرنا ہوگا۔ نو آبادیاتی (گورا) افسر طبقہ جس نے مقامی افسران (جے
سی اوز) پر غلبہ قائم رکھا۔ جہاں سب سے سینئر صوبیدار کو بھی ایک نو آموز، نو عمر
سیکنڈ لیفٹیننٹ سے کمتر سمجھا جاتا تھا، اس روایت کا خاتمہ ضروری ہے۔ یہی اصلاح سول
سروس میں بھی ضروری ہے، جہاں ساٹھ سالہ تجربہ کار تحصیلدار کو ایک نئے بھرتی ہونے والے
سی ایس پی افسر سے کمتر سمجھا جاتا ہے اور اس کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جاتا ہے۔
ان تمام ناہمواریوں کو ختم کرنا ہوگا۔
جمہوریت کو عدلیہ کے تعاون سے مضبوط کیا جائے تاکہ ان
اداروں کے چھوڑے ہوئے خلا کو پُر کیا جا سکے جو پیچھے ہٹ جائیں گے۔
منتخب نمائندوں کو ان نوآبادیاتی ریاستی اداروں پر مکمل
کنٹرول حاصل ہونا چاہیے۔ ہم اس مقصد کے لیے ”سیاسی کمسار“ نظام پر بھی غور کر سکتے ہیں جو کمیونسٹ دنیا میں
کامیابی سے چل رہا ہے۔
اس سب کے حصول کے لیے سب سے بنیادی شرط قانون کی حکمرانی
اور بالادستی ہے، جس کے لیے آئین کو مکمل طور پر با اختیار بنانا ہوگا اور کسی کو بھی
اس کی بے حرمتی یا منسوخی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ آئین کی خلاف ورزی کو سب سے بڑا
جرم قرار دے کر سخت ترین سزائیں دی جانی چاہئیں تاکہ مستقبل کے ممکنہ مہم جوؤں کو روکنے
کے لیے مؤثر رکاوٹ پیدا کی جا سکے۔
آج جب میں پاکستان کو دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ
ہم اب بھی نوآبادیاتی دور میں جی رہے ہیں اور کسی چودہ اگست کے منتظر ہیں جو پاکستانیوں
کے لیے حقیقی آزادی اور مواقع لائے گا۔ سرکاری ملازمین کا تکبر اور عوام کو کمتر سمجھنے
کا رویہ، جن کی خدمت کرنا ان کا فرض ہے، آج بھی ویسا ہی ہے بلکہ نوآبادیاتی دور سے
بھی بدتر ہے۔ انہوں نے وہ غرور تو برقرار رکھا لیکن برطانوی نوآبادیاتی بیوروکریسی
کی شائستگی اور دیانت کو ترک کر دیا۔
وقت نے ثابت کیا ہے کہ اس سرزمین میں بے پناہ صلاحیت
اور سماجی سرمایہ موجود ہے، جسے نوآبادیاتی استحصالی اداروں نے طویل عرصے تک بے دردی
سے دبایا اور محدود رکھا۔ ایک بار جب یہ منفی رکاوٹیں ختم کر دی جائیں گی تو
معجزاتی نتائج آنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا، ان شاءاللہ۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ایسٹ انڈیا کمپنی اور اس کے تابع
اداروں سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کریں۔
”حکومت محض ایک خادم ہے – محض ایک عارضی خادم؛ یہ اس
کا حق نہیں کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط، یا یہ طے کرے کہ کون محبِ
وطن ہے اور کون نہیں۔ اس کا کام احکامات کی تعمیل کرنا ہے، انہیں وضع کرنا نہیں۔“۔
مارک ٹوین
انگریزی آرٹیکل: ڈاکٹر عمر خان
اردو ترجمہ: الیاس گوندل
(ایک ممکنہ متبادل عنوان کمپنی کی خود کے لیے بنائی گئی ریاست )
گر قبول افتد زہے عز و شرف