Friday, January 3, 2025

ایسٹ انڈیا کمپنی کی خود کے لیے بنائی گئی ریاست

 

ایسٹ انڈیا کمپنی کی خود کے لیے بنائی گئی ریاست

”کیا حکومت ہم سے خوفزدہ ہے؟ یا ہم حکومت سے ڈرتے ہیں؟ جب عوام حکومت سے خوفزدہ ہوتے ہیں، یہ جبر کی فتح ہوتی ہے۔ مرکزی حکومت ہماری خادم ہے، مالک نہیں۔“

تھامس جیفرسن

 

اٹھارویں صدی کے وسط میں یورپ میں جدید ریاست کا وجود ابھر رہا تھا جبکہ ہندوستان میں ابھی تک قدیم طرز کی بادشاہت سانسیں لے رہی تھی جہاں حکمرانوں کی ذاتی خواہشات آئین و قانون سے زیادہ محترم تھیں۔ اس پس منظر میں 1757 میں دُنیا نے ایک حیران کُن اور نا قابلِ یقین واقعہ دیکھا۔ ہزاروں میل دور ایک چھوٹے سے غریب اور پسماندہ مُلک کی ایک تجارتی کمپنی نے دولت سے مالا مال ایک بڑے ملک کو زیر کر لیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے، جو لندن کے ایک چھوٹے سے دفتر میں قائم ایک غیر منظم مشترکہ سرمایہ کمپنی تھی اور جو ہندوستان میں ایک ذہنی مفلوج، سماج دشمن رابرٹ کلائیو کے زیرِ انتظام تھی، ہندوستان کے امیر ترین حصے، مغل بادشاہت کے صوبے بنگال پر غلبہ حاصل کر لیا۔  

 ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقاصد بالکل واضح تھے، بنیادی طور پر اپنے شراکت داروں کے لیے منافع، جس میں کسی اخلاقی اصول کی پاسداری اور کسی قسم کے تردّد کو چنداں اہمیت نہ تھی۔ نسل پرستانہ نظریات رائج ہوئے۔ مقامی باشندوں کو فی الحقیقت کم تر اور غیر تہذیب یافتہ لوگوں کے طور پرسمجھا گیا اور ان کے ساتھ اسی رویے کے تحت سلوک بھی کیا گیا۔ یہ کمپنی کسی ریاست کو چلانے کے لیے قائم نہیں کی گئی تھی اور وہ بھی اتنی بڑی ریاست۔ اس خطے کے باشندوں کی فلاح و بہبود اور خوشحالی یا اُن پر اس کی پالیسیوں کے دور رس اثرات کو کبھی بھی اہم نہیں سمجھا گیا۔ شئیر ہولڈرز کے لیے کسی بھی قیمت پر بے دریغ منافع کا حصول کمپنی کے وجود کا واحد مقصد تھا۔

ان غیر مقبول اور غیر منصفانہ مقاصد کے حصول کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال ضروری تھا، اور اس کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک جدید ریاستی ڈھانچہ اور ایسے جدید ادارے قائم کرنے شروع کیے جن سے مقامی لوگ نابلد تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک جدید تربیت یافتہ فوج تشکیل دی، اُسے جدید ہتھیاروں سے لیس کر کے جدید جنگی حکمت عملی کی تربیت دی۔ (یاد رہے کہ مغلیہ سلطنت کے خوشحال سنہری دور میں بھی کوئی جدید فوجی اکیڈمی قائم نہیں کی گئی تھی۔) فوج کے علاوہ ایک مضبوط بیوروکریسی اور عدلیہ بھی قائم کی گئی تا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی کامل گرفت اور اختیارات کو مضبوط کیا جا سکے اور اسے کسی نہ کسی حد تک قانونی جواز بھی فراہم کیا جا سکے۔

ان اداروں کو معقول تنخواہیں دی جاتی تھیں اور ان کے عملے کے گرد ایک مخصوص ناقابلِ تسخیر ہالہ بنا دیا گیا تھا۔ ان جابرانہ اداروں کو ایک مخصوص مقام عطا کرتے ہوئے مقامی لوگوں کی خودداری، عزتِ نفس اور قومی وقار کو منظم طریقے  سے پامال کیا گیا۔ انہیں تحقیر آمیز انداز میں ”نیٹو کہا جاتا تھا اور انہیں اس نہج تک کچلا گیا کہ وہ حقوق اور عزت و احترام کی امید تک نہ کر سکیں جو ایک قومی ریاست اپنے شہریوں کو عطا کرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ظالمانہ مقاصد کے حصول کے لیے مقامی لوگوں کو ہی بھرتی کیا گیا اور ان کی طاقت کو انہی کے خلاف استعمال کیا گیا، اگرچہ مقامی فوجیوں کے ساتھ بھی نسلی امتیاز اور ظلم روا رکھا گیا۔ مقامی باشندوں کو ادارہ جاتی طور پر کمتر ثابت کیا گیا اور ان کے ذہنوں میں ان کی کمتر حیثیت کے ساتھ ساتھ انگریزوں کی برتری کا یقین بٹھا دیا گیا۔

ان اداروں اور مقامی لوگوں کے مابین تعلقات کو جان بوجھ کر دشمنانہ بنایا گیا اور اداروں کے اختیارات کو ظالمانہ حدود تک بڑھاوا دیا گیا تاکہ مزاحمت کی صلاحیت اور امکانات کو سرے سے ختم کیا جا سکے۔

نوآبادیاتی اداروں کا یہ نظام صدیوں تک کامیابی کے ساتھ چلتا رہا جہاں محکوم لوگوں کو کچلا گیا ، انہیں بھوکا رکھا گیا جبکہ حکمران برطانوی خوشحال ہوتے رہے۔ دُنیا کا امیر ترین ملک غریب ترین ہوتا گیا جبکہ غریب ملک ترقی کرتا رہا۔

اس عظیم ترین محکومی کے اثرات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوئے بلکہ بھرتی کی گئی مقامی افواج کو سامراجی مقاصد کے لیے دُنیا بھر میں استعمال کیا گیا۔ ان فوجیوں نے افیونی       اور گلیپولی جیسی غیر قانونی اور غیر اخلاقی جنگوں میں حصہ لیا، باوجود اس کے کہ ان فوجیوں کے ساتھ بدسلوکی اور ناروا سلوک کیا جاتا تھا۔

دنیا بھر میں بے شمار مسائل اور مصائب پیدا کرنے کے ایک سو نوے برس بعد بالآخر سامراجیت زوال پذیر ہوئی اور محکوم ممالک نے آزادی حاصل کر لی۔

اس عظیم تبدیلی کے دوران بدقسمتی سے نو آزاد ممالک کو وہی ادارے ورثے میں ملے جو ان پر جبر اور ان کے استحصال کے لیے قائم کیے گئے تھے۔ آزادی کے بعد جب برطانیہ کی جانب سے ان اداروں پر عائد کردہ پابندیاں ختم ہوئیں تو ان میں سے کچھ ادارے بے قابو ہو گئے اور مزید تباہی اور مسائل کا سبب بنے۔ ان میں سے کئی اداروں نے خود کو ریاست کا نجات دہندہ اور قوم پرستی و حب الوطنی کا علمبردار قرار دے کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

نوآبادیاتی اداروں کی مکمل بالادستی نے، جس میں عوام کے لیے ایک موروثی حقارت شامل تھی، پاکستان کی نئی نویلی ریاست اور اس معاشرے کو بری طرح نقصان پہنچایا اور بالآخر اسے گھٹنوں کے بل گرا دیا۔ معیشت بدحالی کا شکار ہے، معاشرہ ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے، ہم بے شمار نہ ختم ہونے والی جنگوں میں الجھے ہوئے ہیں، تمام ادارے زوال پذیر ہیں، انسانی ترقی کے اشاریے نچلی ترین سطح پر ہیں اور ہمارے اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔

مختصر یہ کہ پاکستان ایک ایسی ریاست بن چکا ہے جسے دنیا میں ایک تنہا ریاست کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ہمارے کچھ روایتی دوست ممالک نے پاکستانیوں کے لیے ویزوں پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے اور پاکستانی پاسپورٹ کے ساتھ بین الاقوامی سفر ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔

نوجوان نسل، جن کی صلاحیتوں کو ہمیں بہترین ماحول فراہم کرکے پروان چڑھانا چاہیے تھا، مایوسی کا شکار ہو کر ملک چھوڑنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ لوگ اب اس ملک کے قیام اور وجود کی بنیادوں پر سوال اٹھانے لگے ہیں۔

 

ستتر سال کی آزادی کے بعد اب ہمیں اپنے بیشتر مسائل کی بنیادی وجوہات کے ساتھ نمٹنا چاہیے جو استعماری، استحصالی اور  بے لگام اداروں کی طاقت اور غلبے کی صورت میں ہم نے وراثت میں پائیں۔

سب سے پہلے ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ فوج اور بیوروکریسی عوام کی مرضی کے تابع ہوں۔ عوام کی وہ مرضی جو انتخابات اور منتخب نمائندوں کے ذریعے بنائے گئے قوانین کے تحت ظاہر ہوتی ہے۔ کڑے نظم و ضبط کی حامل اور درجہ بہ درجہ مراتب کے اصولوں کے تحت کام کرنے والی تنظیمیں اگر قانون کے مطابق کام کریں تو وہ ادارے کہلاتی ہیں، لیکن اگر وہ قانون کے خلاف کام کریں تو وہ گروہ بن جاتی ہیں، جو کہ ایک نہایت ناپسندیدہ صورت حال ہے۔ انہیں یہ باور کرانا ضروری ہے کہ وہ حکمران نہیں بلکہ ٹیکس ادا کرنے والے عوام اصل مالک ہیں۔ ریاستی ملازمین کی اس بات پر اجارہ داری ختم ہونی چاہیے کہ وہ قومی مفاد کی تعریف وضع کریں اور محبِ وطن یا غداروں کی نشان دہی کریں۔ یہ نہ تو ان کا کام ہے اور نہ ہی ان کی صلاحیت۔

نوآبادیاتی دور کے توہین آمیز القابات، جیسے ”بلڈی نیٹوز جو بعد میں ”بلڈی سولینز میں تبدیل ہوگئے، کا مکمل طور پر خاتمہ ضروری ہے۔ سرکاری ملازمین کو یہ سکھانا ہوگا کہ شہریوں کی خدمت اور ان کی حفاظت کرنا قابلِ فخر ہے، باعثِ شرمندگی نہیں۔ عوام کی خدمت ان کے وجود کا واحد مقصد ہونا چاہیے۔

حکومتی نظام میں نوآبادیاتی دور کے دوہرے طبقاتی نظام کی میراث کو ختم کرنا ہوگا۔ نو آبادیاتی (گورا) افسر طبقہ جس نے مقامی افسران (جے سی اوز) پر غلبہ قائم رکھا۔ جہاں سب سے سینئر صوبیدار کو بھی ایک نو آموز، نو عمر سیکنڈ لیفٹیننٹ سے کمتر سمجھا جاتا تھا، اس روایت کا خاتمہ ضروری ہے۔ یہی اصلاح سول سروس میں بھی ضروری ہے، جہاں ساٹھ سالہ تجربہ کار تحصیلدار کو ایک نئے بھرتی ہونے والے سی ایس پی افسر سے کمتر سمجھا جاتا ہے اور اس کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جاتا ہے۔ ان تمام ناہمواریوں کو ختم کرنا ہوگا۔

 

جمہوریت کو عدلیہ کے تعاون سے مضبوط کیا جائے تاکہ ان اداروں کے چھوڑے ہوئے خلا کو پُر کیا جا سکے جو پیچھے ہٹ جائیں گے۔

منتخب نمائندوں کو ان نوآبادیاتی ریاستی اداروں پر مکمل کنٹرول حاصل ہونا چاہیے۔ ہم اس مقصد کے لیے ”سیاسی کمسار“  نظام پر بھی غور کر سکتے ہیں جو کمیونسٹ دنیا میں کامیابی سے چل رہا ہے۔

اس سب کے حصول کے لیے سب سے بنیادی شرط قانون کی حکمرانی اور بالادستی ہے، جس کے لیے آئین کو مکمل طور پر با اختیار بنانا ہوگا اور کسی کو بھی اس کی بے حرمتی یا منسوخی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ آئین کی خلاف ورزی کو سب سے بڑا جرم قرار دے کر سخت ترین سزائیں دی جانی چاہئیں تاکہ مستقبل کے ممکنہ مہم جوؤں کو روکنے کے لیے مؤثر رکاوٹ پیدا کی جا سکے۔

آج جب میں پاکستان کو دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم اب بھی نوآبادیاتی دور میں جی رہے ہیں اور کسی چودہ اگست کے منتظر ہیں جو پاکستانیوں کے لیے حقیقی آزادی اور مواقع لائے گا۔ سرکاری ملازمین کا تکبر اور عوام کو کمتر سمجھنے کا رویہ، جن کی خدمت کرنا ان کا فرض ہے، آج بھی ویسا ہی ہے بلکہ نوآبادیاتی دور سے بھی بدتر ہے۔ انہوں نے وہ غرور تو برقرار رکھا لیکن برطانوی نوآبادیاتی بیوروکریسی کی شائستگی اور دیانت کو ترک کر دیا۔

وقت نے ثابت کیا ہے کہ اس سرزمین میں بے پناہ صلاحیت اور سماجی سرمایہ موجود ہے، جسے نوآبادیاتی استحصالی اداروں نے طویل عرصے تک بے دردی سے دبایا اور محدود رکھا۔ ایک بار جب یہ منفی رکاوٹیں ختم کر دی جائیں گی تو معجزاتی نتائج آنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا، ان شاءاللہ۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ایسٹ انڈیا کمپنی اور اس کے تابع اداروں سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کریں۔

”حکومت محض ایک خادم ہے – محض ایک عارضی خادم؛ یہ اس کا حق نہیں کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط، یا یہ طے کرے کہ کون محبِ وطن ہے اور کون نہیں۔ اس کا کام احکامات کی تعمیل کرنا ہے، انہیں وضع کرنا نہیں۔“۔ مارک ٹوین

 

انگریزی آرٹیکل: ڈاکٹر عمر خان

اردو ترجمہ: الیاس گوندل

 

(ایک ممکنہ متبادل عنوان کمپنی کی خود کے لیے بنائی گئی ریاست )

 

گر قبول افتد زہے عز و شرف

Tuesday, December 31, 2024

State created by and for the East India Company

 

Dr. Umar Khan

khanmomar@hotmail.com

Dr. Khan belongs to a Lahore based Think Tank.

29-12-2024

 

 

State created by and for the East India Company

"Does the government fear us? Or do we fear the government? When the people fear the government, tyranny has found victory. The federal government is our servant, not our master!" Thomas Jefferson

In the middle of the eighteenth century modern state was taking shape in Europe while in India the old styled monarchy still survived where whims of the rulers prevailed and not the written law or constitution. With this backdrop in 1757 the world saw a strange and unbelievable event happen, a trading company of a small, poor and backward country thousands of miles away, subjugated a huge country full of riches. East India Company (EIC), an unregulated joint stock company based in a small office in London, managed in India by an unstable sociopath, Robert Clive, prevailed over the richest part of India, the Mughal province of Bengal.

 

 

There were clear objectives of the EIC, basically profit for its shareholders without scruples or ethics. Racial theories prevailed and the natives were actually perceived and treated like inferiors or inadequately evolved people. It wasn’t created to run a state, that also a big one, and welfare or prosperity of its subjects or the long term effects of its policies weren’t considered important enough. Brute profit of shareholders at any cost being the only purpose of its existence.

 

To achieve these unpopular and unfair objectives brute force was needed and for that the EIC started building a modern state structure with modern institutions the local weren’t aware of. The EIC created a modern regimented army giving them modern arms and taught them modern warfare. (Just a reminder, even during the affluent golden times of the Mughal Empire no modern military academy was established). In addition to the military a strong bureaucracy and judiciary was established to cement the absolute control and authority of the EIC while imparting legitimacy of some sort.

These institutions were well paid and a certain untouchable aura was constructed around them and their personal. While imparting certain stature on these subjugative institutions simultaneously the self-esteem, dignity and national pride of the locals was systematically destroyed. They were called by a derogatory term called natives and were crushed to an extant where they would not even ask or expect rights and respect nation states give. Interestingly for this cruel objective locals were hired and their strength used against it sown people although the local troops were also racially discriminated and persecuted. Natives were institutionally belittled and convinced of their inferiority along with the superiority of the British.

Relationship between these institutions and the natives was intentionally made adversarial and their authority was ruthlessly established to stamp out potential of resistance.

This setup with colonial institutions worked well for centuries where the subjugated people were crushed and starved while the ruling British prospered. Th richest country became the poorest while the poor one thrived.

The effects of this greatest subjugation didn’t stop here as the recruited native armies were used across the globe for imperial purposes fighting illegal/immoral wars like the opium wars and Gallipoli etc despite their soldiers being ill-treated and abused.

190 years later after causing lots of sufferings across the globe ultimately the imperialism fell and subjugated countries won freedom.

During this monumental change unfortunately the newly freed nations inherited the same institutions designed and created for their exploitation and abuse. After the checks on these institutions that Britain had imposed on them ended at independence, some of them just went berserk, out of control causing even further sufferings. Many of them just took over the state claiming to be the beacons of nationalism and patriotism.

The absolute domination of the colonial institutions with inherent contempt for the people damaged the new state of Pakistan and its society as well ultimately bringing it to knees. The economy is in doldrums, society if fragmented, we have gotten ourselves in numerous unending wars, all institutions are crumbling, human development indices are at the lowest point and we have tense relations with all our neighbors.

In short Pakistan has become kind of a pariah state ready to fall any time. Some of our traditional friendly countries have put blanket ban on visas for Pakistan and travelling internationally with a Pakistani passport has become a nightmare.

The youth, whose talents we should have nurtured by providing them the most conducive environment are hopeless trying to leave their country. Situation has really come to the stage where people have started questioning the very basis of its creation and existence.

Now after 77 years of independence we must address the root cause of most of our problems, the power and dominance of the colonial/extractive and unchecked state institutions we inherited.

To begin with we must ensure that military and bureaucracy are subservient to the will of the people expressed through elections and laws created by the elected officials. Highly disciplined hierarchical organizations working according to the law are institutions and if they work against the law they become gangs, a very undesirable entity. They must be convinced that they are not the bosses but the taxpayers are. The monopoly of paid state officials on defining the national interest and identifying patriots and the traitors must be stopped. It is neither their job nor their competence to do it.

Colonial derogatory terms like bloody natives that got converted to bloody civilians must be stamped out. Government employees must be inculcated that serving and protecting the citizens is something to be proud of and not ashamed. Serving people is their only raison d'être.

Imperial legacy of 2 tier class system in the government services has to change. The colonial (gora) officer with its domination over the native officer class of JCOs where their senior most Subedar stands below the entry level teenager 2nd Lt of the colonial officer class, must be eradicated. Same needs to b done in civil service where senior most 60 years old tehsildar is considered junior to a fresh CSP officer and treated with contempt.

Democracy with the help of judiciary must be strengthened filling the void retreating institutions would be leaving.

Elected members must control these colonial state institutions. We might even consider the political commissar system that worked well in the communist world.

To main prerequisite for achieving all this is predominance of rule of law through the empowerment of constitution that no one should be allowed to dishonor/ revoke making it the biggest crime. Constitution violators must be punished severely so that there is enough deterrence to discourage future potential adventurists.

Today when I see Pakistan, I feel that we are still living in colonial times waiting for the 14th August that brings real freedom and opportunity for Pakistanis. The arrogance and belittling behavior of the government servants towards the people they are supposed to serve is the same, rather worse, than the colonial days. They kept the snobbery but without the grace and integrity of the British bureaucracy.

Time has proven that this land has tremendous talent and social capital that has been curtailed/truncated brutally for long by the exploitative colonial institutions. Once these negative constraints are withdrawn miraculous results won’t take long, IA.

It’s time to get rid of the East India Company and its subjugative institutions.

 

"The Government is merely a servant - merely a temporary servant; it cannot be its prerogative to determine what is right and what is wrong, and decide who is a patriot and who isn't. Its function is to obey orders, not originate them." - Mark Twain

khanmomar@hotmail.com

 

 

 

Thursday, October 31, 2024

Chief Justice of Pakistan Qazi Faez Essa

 

Dr. Umar Khan

khanmomar@hotmail.com

31-10-24

 

 

Judge with a very weak and erratic personality

“Elevation of one wrong man to the position of authority can cause more harm than loss of a hundred wise men. (Persian proverb)”

"Courts are wedded to law but they sleep with the rich and powerful"
(Voltaire)

 

 

Introduction of live cameras in the Supreme Court of Pakistan showed the nation how dominating Chief Justice Qazi Faez Issa could be. He wasn’t only dominating and overpowering towards the plaintiffs but also the lawyers and fellow judges too. This domination at times or mostly exceeded the limits of desirability and we saw judges and lawyers of high standing avoiding him and his court out of fear of being belittled. In a court of law the judge is the final authority and the Chief Justice of Supreme Court of a nation of 250 million holds a special sway and authority. His confidence and authoritative demeanor instilled a special self-assurance in the nation as we like to see our judges to be strong; after all they are the ultimate protectors from an overbearing state.

 

But then we saw him reviewing the Mubarak Sani case. Over here this strong man behaved so much differently when under pressure appearing meek, scared and unsure of himself. He crossed all limits of decency trying to please others disgracing himself and his court in the process. Talk of the town was that ultimately he called the plaintiffs to his chambers letting them dictate the decision.

 

It is perfectly fine to acknowledge one’s mistakes and correcting them but there has to be a certain decorum and dignified manner that must be adopted. QFI could have remedied his faulty decision (in his own words) in a much more honorable way maintaining the poise, pride and honor required by his chair and the institution.

 

Then facing some accused representatives of establishment he again wasn’t the same overwhelming person but rather a humble and timid judge. He was avoiding eye contact while talking in a frail voice without authority that we had seen in earlier cases. This was when he was facing Faisal Wada.

 

Worst was still to come, last night he was coming out of gates of Middle Temple in UK where he faced a few protestors and astonishingly he hid his head between his knees sitting on the back seat of a car. It just looked pathetic, disgraceful, unbecoming of a retired judge.

 

 

While facing protestors right or wrong, he should have shown grace to face them like a gentleman without trying to hide by putting his face between the knees. As a CJ he had confidently given some very strange and controversial decisions and should have expected criticism facing it with poise.

 

With the benefit of hindsight we can say with certainty that QFI was a very weak person/CJ who was a bully for the vulnerable coming to him for relief, and a chicken in front of the strong. Then he confirmed that apart from his weakness he didn’t have a good judgment or prudence, totally unaware of his limits and graces. A Chief Judge without basic judgmental sense; how about that???

 

Summing it up I think he had some serious behavior issues and personality disorders making him unfit to be a judge or anything worthwhile for that matter. This makes me feel so naiveté and foolish for having high hopes in him and supporting him when others tried to rid of him a few years earlier. QFI was a perfect case of disqualification of a judge and his removal could have saved the nation severe instability that we are facing.

 

Pakistan promoted QFI to a very important post and is suffering due to that. He destroyed and fragmented many facets of the society and generations will be needed to rectify them.

Mistakes should make a nation wiser. We must devise a better and more thorough selection process for our judiciary. This tragedy teaches us a lesson that all aspirants of important public offices must go through a thorough selection process consisting of academic, social and psychological assessments before they are handed over responsible designations.

 

No nation can afford to have another QFI on a judicial chair again.

 

 

 

“The actual worth of a person is that is the world better off with him or without him.”

 

khanmomar@hotmail.com

 

 

 

Monday, July 29, 2024

An unlevelled comparison between Honda NC750 2024, Suzuki Inazuma250 2023 and Honda XR650L/Dominator 2007 for Pakistani travelers

 


Although it’s difficult to compare bikes of different sizes and types as all flowers have their own peculiar fragrance, we proceed.

I bought my Honda XR/Dominator 650 used,  a few years ago and have driven it around 10k kms. Drove new Inazuma for 1300kms and the NC750 for 1000kms. Want to share my impressions.

1.     Reliability.

A great favor of Japanese for the bikers is giving extreme reliability in all sizes and prices. A prominent Spanish biker friend, who is also a media personality, once drove his very expensive Triumph to Lahore on a company sponsored trip. Early morning when he was about to leave for India we saw drops of oil below the drive shaft. It was scary. Upon contacting the factory he was advised to keep checking and replenishing the drive shaft oil and reach Delhi driving very carefully where they shipped a new drive shaft and got the bike repaired. The only thing coming to my mind was that any cheap Japanese bike like Honda 70 would have done London-Lahore without any hiccup unlike the expensive Triumph.

The British bikes of my childhood era that I remember were very loud, vibrating, leaking oil and breaking down frequently. Only the German BMWs were reliable but then very expensive.

These 3 bikes have been most reliable and I never had a problem with any of these.

2.     Suspension

The shocks of XR have long travel 11” and 11.5” making it the most comfortable driving offroads and decent on metalled roads. NC is very comfortable on metalled roads with fabulous suspension and controls while the Inazuma has slightly weak front suspension.

Here XR wins hands down.

3.     Quality.                                      

The 2 Hondas are made in Japan and that shows through its quality. Although Inazuma is a Japanese brand but it’s manufactured in China showing quality much better than most Chinese brands still feels somewhat short at times in its paint and workmanship.

 NC has an edge in quality but just.

4.     Starting. Wonderful starting but only XR comes with a kick starter that a person like me cannot even think of using even though it comes with a built in compression release mechanism.

No winners here.                                

5.     Braking

All the bikes have a single front and a single back disc brakes with the Inazuma stopping most sure footedly while the NCs brakes are barely adequate although it has ABS. The XR brakes are hard to check as it’s thick knobby tires can’t tolerate much of braking on black top while working well on the offroads.

Inazuma is a clear winner in braking despite not having ABS..

6.     Fuel consumption.

This one is surprising. My old habit of noting the fuel and milometer allows me to comment somewhat accurately. The Inazuma and NC have EFIs while the XR still comes with the old carburetor. Over the years the XR averaged at around 18kms/liter including highway and mountain travel. Inazuma like the NC was driven only in the city averaging at 26kms/liter while the big NC with its 750cc engine averaged 27kms/liter.  I am sure on the highways after the engine had broken in well, these figures would further improve.

Honda NC750 wins here.

7.     Vibrations.

XR although 650cc but still has a single cylinder engine while the other 2 are parallel twins. All 3 have balancer shafts curtailing the vibrations effectively. The XR with the 100mm bore does vibrate at all speeds but is bearable till 100kph. The NC with its 270 degrees firing order imparts certain vibrations but not very annoying. The Inazuma has an undersquare engine imparting better low end torque is the most refined and sophisticated running engine pulling sweetly till 100kph.

Inazuma wins here.

8.     Tubeless tires.

The Inazuma and NC has 17” alloy wheels with tubeless tires effectively freeing from flats. The 21” front wheel of the XR might be prone to flats but increases the reach a lot. It’s a tradeoff, take your pick.

NC and Inazuma win here.

9.     Acceleration/Power.

With its 750cc engine the NC shows fabulous power although it doesn’t rev beyond 6.5k. Inazuma revs till the double figures and shows decent power for its displacement. The XR produces brute power that is at times hard to handle but a bit intoxicating, love it or leave it.

NC wins here.

10.            Stability.

The XR is most unstable on the black tops while NC feels stable and surefooted. Inazuma is well balanced but feels a bit lighter.

NC wins here.

11.            Posture.

I found the Inazuma’s posture and the seat most comfortable while the XR is great for the offroads but its posture can be tiring on the tarmac. NCs seat needs modification and the handle raised to make it comfortable.

Inazuma’s posture is the best.

12.            Seat height.

For me seat height isn’t an issue with any of these but still Inazuma is the lowest making it easiest to ride. The XR’s seat is the highest and short riders might have problems putting their feet on ground on the traffic signals. NC’s seat is an inch higher than the Inazuma making it easy to get on without cramping..

Inazuma wins here.

13.            Off road capability

Although categorized as an adventure bike didn’t find the NC very suitable for offroads just like the Inazuma although these 2 just manage. The XR is a league in its own with 21” front tire, long travel suspension and the high torque RFVC engine.

XR wins here, naturally.

14.            Ease of maintenance.

The XR just has an engine and 2 wheels and nothing else, so easy to maintain. While the NC and Inazuma need lots of work for even the routine jobs like air filter replacement. Everything is difficult on the NC and had Youtube not been there for help, I would have called it impossible.

XR wins here followed by the Inazuma and lastly the NC. The only saving grace is that NC needs oil change and maintenance after every 12k kms; no kidding J.

XR is a clear winner.

15.            Availability of spares.

Many Inazuma’s are plying on Pakistani roads so spares like oil/air filters are the easiest to procure at reasonable prices. Other parts like chain sprockets etc are also available. No parts of any kind are available for the NC except its oil filter that it shares with the police CBX500. Need a constant source abroad to keep the NC running. XR hardly needs anything and as it’s in production for the last 30 years its spares are abundant everywhere out of Pakistan.

Inazuma wins here followed by the XR. NC is a clear loser.

16.            Top Speed

I really don’t know about the top speeds as I rarely exceed 100kph except on motorways where bikes are not allowed. Inazuma and the NC easily reach and maintain @ 100kph although other members drove the XR @ 140kph on even smaller roads.

17.            Price.

 Inazumas are the most reasonably priced @ 1190k till the stocks last at Pak Suzuki and the price might go up a lot after that. The XR if available used, costs the same if you are lucky enough to find a seller while a new one would cost around 5M. New NC costs 7M if imported due to very high duties and other taxes and used are not available.

In short.

For highways, international travel and mountain roads Inazuma appears to be the most suitable for Pakistanis by a big margin. It can be used for soft offroads too but shouldn’t be put through the hard tracks like the Karambar.

Only if it had a 100-150ccs more displacement and ABS, it might have been close to an ideal bike for the Pakistanis.

Certainly the best value for money.

 

Monday, May 13, 2024

میسور کا مزار

 

ڈاکٹر عمر خان

khanmomar@yahoo.com

ڈاکٹر خان لاہور میں ایک تھنک ٹینک کے سربراہ ہیں۔ 30-09-07

 

میسور کا مزار

 

ہندوستان میں مزارات کو مذہبی اور سماجی تقسیم میں بہت زیادہ عزت دی جاتی ہے۔ تمام مذاہب اور نسلوں کے عقیدت مند معمول کے مطابق اپنے آباؤ اجداد اور پرانے زمانے کے مقدس لوگوں کی قبروں پر جاتے ہیں۔ ان مزاروں کی زیارت کرنا ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے اور لوگ عقیدت کے گیت گا کر، مقدس صحیفے پڑھ کر، دعائیں مانگ کر اور دل کھول کر عطیہ کر کے خصوصی خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ مزارات کی اس سرزمین میں جنوب میں ایک مشہور مگر عجیب اور مختلف قسم کا مزار ہے۔ اس مختلف مزار میں بہت سے گندے جوتے رسیوں سے لٹکائے ہوئے ہیں۔ عقیدت مند مزار میں داخل ہوتے ہیں، اپنی پسند کا گندا جوتا اٹھاتے ہیں، قبر کو جوتے سے مارتے ہیں اور توہین آمیز آیات کا نعرہ لگاتے ہوئے احاطے سے نکل جاتے ہیں۔ جی ہاں یہ میسور کے حکمران میر صادق کا مقبرہ ہے جسے "جوٹیوں والی سرکار" کہا جا سکتا ہے۔ وہی میر صادق جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا

 

جعفر از بنگال و صادق از دکن

ننگ ملت، ننگ قوم ننگ وطن

 

 میر صادق ہندوستان پر برطانوی قبضے کے خلاف مزاحمت کرنے والے میسور کے حکمران ٹیپو سلطان کے ایک جرنیل اور وزیر تھے۔ جب انگریز فوجی طور پر ٹیپو کو زیر نہیں کر سکے تو انہوں نے میر صادق کے ساتھ سازش کی جس نے ٹیپو کے تخت کے وعدے کے ساتھ ان کے ساتھ تعاون کیا۔ اس نے بہت مؤثر طریقے سے ٹیپو کو دھوکہ دیا اور اسے مار ڈالا اور میسور کا برائے نام حکمران بن گیا۔ اس عمل میں اس نے حملہ آوروں کی مدد کی، انگریزوں نے برصغیر کو ایک صدی سے زائد عرصے تک ذلت اور رسوائی کا باعث بنا۔ زیادہ تر مورخین اسے ان بڑے غداروں میں شمار کرتے ہیں جنہوں نے معمولی ذاتی فائدے کے لیے اپنے ہی لوگوں پر انگریزوں کی مدد کی۔ تعجب کی بات نہیں کہ وہ شاید برصغیر کا سب سے ذلیل شخص ہے جہاں دنیا کا پانچواں حصہ رہتا ہے۔

 

یہاں تک کہ استعمار کے بدترین ناقدین بھی اس بات پر متفق ہیں کہ ہندوستان میں برطانوی راج تمام برا نہیں تھا اور یقیناً کچھ اچھی چیزیں بھی تھیں۔ انہوں نے جمہوریت اور تعلیم کے ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کو بھی لایا۔ وسیع ریلوے اور آبپاشی کے نظام کو تیار کیا گیا جس نے ہندوستان کو یورپ اور امریکہ کے بعد سب سے زیادہ ترقی یافتہ بنا دیا۔ ان مثبت اقدامات کے باوجود برصغیر کے قابل فخر لوگوں کی نفسیات اور عزت نفس کو غیر ملکی حکمرانوں نے بری طرح مجروح کیا۔ مقامی لوگوں کو حقارت سے مقامی کہا جاتا تھا اور انہیں ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا تھا۔ بالآخر ہندوستان کے قابل فخر لوگ غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور سو سال سے زیادہ کی جدوجہد کے بعد لاکھوں لوگوں کی جان لے کر آزادی حاصل کی۔ میر صادق نے چند معمولی عارضی مراعات کے لیے قوم کو صدیوں تک غیروں کے ہاتھوں عذاب میں مبتلا کیا۔ یہ نکتہ پورے برصغیر میں ان کے لیے محسوس کی جانے والی حقارت اور حقارت کی مناسب وضاحت کرتا ہے جسے انسانیت کا پانچواں حصہ گھر کہتا ہے۔

غداری اور بغاوت کو تمام تہذیبوں میں دنیا بھر میں جانا جانے والا سب سے سنگین جرم سمجھا جاتا ہے۔ غیر ملکی دشمن قوتوں کے ساتھیوں کے ساتھ غدار بھی یکساں برے اور بدکار سمجھے جاتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہم نے ماضی کی جنگ کے بوڑھے جنگی ہیروز کو دشمنوں کے ساتھ تعاون کے الزام میں ذلیل و خوار ہوتے دیکھا۔ کچھ لوگ غداری کو اتنا بڑا جرم سمجھ سکتے ہیں کہ غدار کو سزا دینے کے لیے ایک زندگی کا وقت ناکافی ہے اور بہت سے غدار بالکل بھی سزا سے محروم رہ جاتے ہیں۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے بھی اس دنیا کے حل طلب معاملات کو کافی حد تک حل کرنے کے لیے آخرت کی ضرورت محسوس کی۔ یہی وجہ ہے کہ محب وطن ہندوستانیوں نے میر صادق کو آنے والے ہر دور کے لیے ذلیل کرنے کا ایک طریقہ وضع کیا کیونکہ ان کی زندگی میں انہیں خاطر خواہ سزا نہ مل سکی۔ اس نے اپنے لوگوں کے خلاف اتنا سنگین جرم کیا کہ اسے آسانی سے معاف کر دیا جائے۔ اس کی اولاد کہیں زندہ ضرور ہے لیکن اس کا اعلان کرنے کی ہمت نہیں کرے گا کہ وہ ہمیشہ اس خوف میں رہتے ہیں کہ پتہ چل جائے اور سماجی ذلت کا سامنا کرنا پڑے۔

 

اس وعدے کی سرزمین میں رہنے والے ہم پاکستانی جس کے لیے ہمارے آباؤ اجداد نے صدیوں سے جدوجہد کی تھی، اپنے چھوٹے موٹے فائدے کے لیے غداری کرنے والے ہمارے حصے سے زیادہ غدار ہیں۔ اس ملک کی اس افسوسناک حالت کے ذمہ دار زیادہ تر یہ غدار ہیں جو کہ پاک سرزمین تھی۔ ہمیں اپنی 60 سال کی مختصر تاریخ میں بہت زیادہ شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم تقسیم ہو گئے، بہت سی جنگیں لڑیں، بار بار اپنے آئین کو پامال کیا، عوام کی رائے کو نظر انداز کیا، قومی انتشار کے بیج بوئے، غیر قانونی ہتھیاروں اور منشیات کو اپنے چند سنگین مسائل کا نام دیا۔ یہ اس قدر سنگین ہو گیا ہے کہ ہم ہمیشہ ایک ناکام یا دہشت گرد ریاست قرار دیے جانے کے دہانے پر ہیں جوہری پھیلاؤ کے اور بھی سنگین الزامات کے ساتھ۔ ان مشکل وقتوں میں بہت سے لوگوں نے قوم کی قیمت پر فائدہ اٹھایا اور حالات کو مزید خراب کر دیا۔ ان عوامل کی وجہ سے ہم اپنے لوگوں سے زیادہ اپنے غیر ملکی آقاؤں کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان تمام سانحات کے لیے کبھی کسی کو ذمہ دار نہیں پایا گیا اور نہ ہی سزا دی گئی۔ ان کی نسلیں کھلم کھلا ان کے جرائم کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ ہم نے ایک ایسا کلچر تیار کیا ہے جس میں بڑے بڑے جرائم کا ارتکاب معافی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے اور اس عمل کو روکنا ضروری ہے۔ مستقبل کے مجرموں کی حوصلہ شکنی کے لیے جب بھی ممکن ہو قوم کے خلاف جرائم کی سزا ملنی چاہیے۔

غداری اور بغاوت کو تمام تہذیبوں میں دنیا بھر میں جانا جانے والا سب سے سنگین جرم سمجھا جاتا ہے۔ غیر ملکی دشمن قوتوں کے ساتھیوں کے ساتھ غدار بھی یکساں برے اور بدکار سمجھے جاتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہم نے ماضی کی جنگ کے بوڑھے جنگی ہیروز کو دشمنوں کے ساتھ تعاون کے الزام میں ذلیل و خوار ہوتے دیکھا۔ کچھ لوگ غداری کو اتنا بڑا جرم سمجھ سکتے ہیں کہ غدار کو سزا دینے کے لیے ایک زندگی کا وقت ناکافی ہے اور بہت سے غدار بالکل بھی سزا سے محروم رہ جاتے ہیں۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے بھی اس دنیا کے حل طلب معاملات کو کافی حد تک حل کرنے کے لیے آخرت کی ضرورت محسوس کی۔ یہی وجہ ہے کہ محب وطن ہندوستانیوں نے میر صادق کو آنے والے ہر دور کے لیے ذلیل کرنے کا ایک طریقہ وضع کیا کیونکہ ان کی زندگی میں انہیں خاطر خواہ سزا نہ مل سکی۔ اس نے اپنے لوگوں کے خلاف اتنا سنگین جرم کیا کہ اسے آسانی سے معاف کر دیا جائے۔ اس کی اولاد کہیں زندہ ضرور ہے لیکن اس کا اعلان کرنے کی ہمت نہیں کرے گا کہ وہ ہمیشہ اس خوف میں رہتے ہیں کہ پتہ چل جائے اور سماجی ذلت کا سامنا کرنا پڑے۔

 

اس وعدے کی سرزمین میں رہنے والے ہم پاکستانی جس کے لیے ہمارے آباؤ اجداد نے صدیوں سے جدوجہد کی تھی، اپنے چھوٹے موٹے فائدے کے لیے غداری کرنے والے ہمارے حصے سے زیادہ غدار ہیں۔ اس ملک کی اس افسوسناک حالت کے ذمہ دار زیادہ تر یہ غدار ہیں جو کہ پاک سرزمین تھی۔ ہمیں اپنی 60 سال کی مختصر تاریخ میں بہت زیادہ شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم تقسیم ہو گئے، بہت سی جنگیں لڑیں، بار بار اپنے آئین کو پامال کیا، عوام کی رائے کو نظر انداز کیا، قومی انتشار کے بیج بوئے، غیر قانونی ہتھیاروں اور منشیات کو اپنے چند سنگین مسائل کا نام دیا۔ یہ اس قدر سنگین ہو گیا ہے کہ ہم ہمیشہ ایک ناکام یا دہشت گرد ریاست قرار دیے جانے کے دہانے پر ہیں جوہری پھیلاؤ کے اور بھی سنگین الزامات کے ساتھ۔ ان مشکل وقتوں میں بہت سے لوگوں نے قوم کی قیمت پر فائدہ اٹھایا اور حالات کو مزید خراب کر دیا۔ ان عوامل کی وجہ سے ہم اپنے لوگوں سے زیادہ اپنے غیر ملکی آقاؤں کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان تمام سانحات کے لیے کبھی کسی کو ذمہ دار نہیں پایا گیا اور نہ ہی سزا دی گئی۔ ان کی نسلیں کھلم کھلا ان کے جرائم کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ ہم نے ایک ایسا کلچر تیار کیا ہے جس میں بڑے بڑے جرائم کا ارتکاب معافی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے اور اس عمل کو روکنا ضروری ہے۔ مستقبل کے مجرموں کی حوصلہ شکنی کے لیے جب بھی ممکن ہو قوم کے خلاف جرائم کی سزا ملنی چاہیے۔

Wednesday, May 8, 2024

9 مئی کے ناقابل فہم واقعات

 

ڈاکٹر عمر خان

khanmomar@hotmail.com

ڈاکٹر خان کا تعلق لاہور کے تھنک ٹینک سے ہے۔

 14-4-24

 

 

      9 مئی کے ناقابل فہم واقعات 

’’بغیر تحقیق کے مذمت کرنا جہالت کی انتہا ہے‘‘۔ آئن سٹائن

 

واقعات کا ایک عجیب اور ناقابل فہم سلسلہ 9 مئی 2023 کے اس اندوہناک دن سے شروع ہوا۔ ان واقعات کو پاکستانی 9/11 کا نام دیا گیا جس نے پاکستان کو بدل دیا۔ حیرت انگیز طور پر اصل 9/11 غیر ملکیوں کے خلاف اثرات اور تشدد لے کر آیا لیکن ہمارے معاملے میں ریاستی تشدد اپنے ہی پاکستانیوں کے خلاف تھا۔ اگرچہ 9 مئی کے واقعات نے پاکستان کو بہت زیادہ متاثر کیا، لیکن ان واقعات کے ردعمل نے بہت زیادہ متاثر کیا، بدقسمتی سے یہ سب نقصان دہ تھے اور شاید نسلوں کو اس کا تدارک کرنے میں وقت لگے۔ اگر بالکل خوش قسمت.

 

آئیے اس اہم دن کے واقعات کا تجزیہ کرتے ہیں،

 

اس عام مئی منگل کا آغاز ملک کو چونکا دینے والی ایک عجیب ترقی کے ساتھ ہوا۔ عمران خان مقبول سیاست دان جو سابق وزیر اعظم بھی تھے اسلام آباد میں ایک ایسے کیس کے حوالے سے ہائی کورٹ کے سمن میں شرکت کر رہے تھے جنہیں بہت سے مشکوک سمجھا جاتا تھا۔ معمول کے مطابق جب وہ اپنا بائیو میٹرک کروا رہے تھے، اسلام آباد ہائی کورٹ پر بڑی تعداد میں وردی پوش اور مسلح اہلکاروں نے حملہ کیا۔ وہ کھلے عام تشدد میں ملوث تھے اور املاک کو نقصان پہنچاتے تھے اور وکلاء اور دیگر کو جسمانی طور پر مارتے تھے۔ IHC کے احاطے کے تقدس کی بے حرمتی کرنے والے ریاستی قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کا ایک گروپ تھا جو اس عمل میں IK کی تذلیل کرنے والا ایک عجیب تماشا بنانے میں کامیاب ہوا۔ IK کے ساتھ جسمانی طور پر بدسلوکی کی گئی، ان کے وکلاء کو لہو لہان کیا گیا اور یہ سب کچھ ریکارڈ کیا گیا اور قومی میڈیا میں چلایا گیا۔

اس ڈرامے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے نوٹس لیا لیکن بعد میں کچھ نہیں ہوا۔

آئی کے ایک مقبول شخصیت تھی اور ملک بھر میں ٹی وی اسکرینوں پر دکھائے جانے والے اس واقعے نے کافی ناراضگی پیدا کی اور کارکن کئی جگہوں پر احتجاج کے لیے نکل آئے۔ پی ٹی آئی نے کئی بار فوجی عمارتوں کے قریب احتجاج کیا کیونکہ یہ احساس تھا کہ فوجی قیادت اپنے حلف کے خلاف سیاست کرتی ہے۔

لاہور میں مظاہرین اپنی پسندیدہ لبرٹی پر جمع ہوئے اور پھر آہستہ آہستہ کور کمانڈرز ہاؤس کی طرف بڑھے۔ یہاں معاملات اور بھی اجنبی ہو گئے اور قانون نافذ کرنے والے اہلکار غائب ہو گئے۔

میں نے شیر پاؤ اور میانمیر پل کے قریب دھرنے کو ایک لمحے کے لیے بھی بالکل خالی نہیں دیکھا لیکن احتجاج کے ٹیلی کاسٹ ہونے کے باوجود اس وقت کوئی پولیس نہیں تھی۔

عام طور پر Corp Comd ہاؤس کے باہر ایک منٹ کے لیے رکنا توجہ اور ردعمل کی دعوت دیتا ہے لیکن نعرے لگانے والے سینکڑوں مظاہرین کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور ان میں سے بہت سے لوگ ایک عام پبلک پارک میں داخل ہوتے ہی عام طور پر بھاری پہرے والے CC ہاؤس میں چلے گئے۔ پھر توڑ پھوڑ بھی ہوئی اور لوٹ مار بھی۔

راولپنڈی، فیصل آباد، میانوالی، پشاور اور دیگر شہروں میں بھی ایسی ہی کہانیاں دہرائی گئیں۔

اس کے بعد ایک اور عجیب واقعہ پیش آیا، ان تمام انتہائی حفاظتی مقامات پر نصب سی سی ٹی وی کیمرے ان ویڈیوز کی ریکارڈنگ کے ساتھ غائب ہو گئے جو کہ کہیں اور محفوظ طریقے سے رکھے گئے DVR میں محفوظ ہیں۔

یہ افسوسناک واقعات تھے اور اس کی تحقیقات ہونی چاہیے تھیں اور مجرموں پر الزام عائد کیا جانا چاہیے تھا جنہیں سزا ملنی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا اور اس سے بھی زیادہ ناقابلِ وضاحت ہو گیا۔

ایک انتہائی ذمہ دار سرکاری افسر نے کھلے عام ایک مقبول سیاسی جماعت پر الزام لگایا اور اس کے خلاف پرتشدد اور ظالمانہ کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ دہشت گردی کا راج شروع ہوا اور دسیوں ہزار کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ بہت سے گھروں پر چھاپے مار کر تباہ کر دیے گئے۔

 عجیب و غریب واقعات یہیں ختم نہیں ہوئے اور یہ اور بھی عجیب ہو گیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ ترین افسران، آئی جی پولیس اور وزیراعلیٰ پنجاب کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے دل کھول کر انعامات سے نوازا گیا اور وہ آج بھی اعلیٰ ترین منافع بخش عہدوں پر براجمان ہیں۔ حال ہی میں دونوں کا احتساب ہونے کے بجائے سجایا گیا۔

غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس دن 25-50 مظاہرین ہلاک ہوئے جنہیں مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ انسانی جانوں کے ضیاع سے زیادہ املاک کے نقصان کا غم ہے۔ پاکستانی ریاستی نظام کی طرف سے پاکستانی جانوں کے ضیاع پر یہ بے حسی قطعی طور پر ناقابل فہم ہے۔

یہ سب کچھ کہنے کے بعد شاید اس دن کے بعد سب سے بڑا معجزہ ہوا، جس قسم کا میں نے پوری تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا اور نہ سنا۔ ایک سرکاری عمارت پر حملہ کرنے والے ایک شدید مشتعل احتجاجی ہجوم کا سب سے اعلیٰ سرکاری اہلکار اور اس کے اہل خانہ سے آمنا سامنا ہوا لیکن کوئی تشدد یا یہاں تک کہ بے حیائی کی اطلاع نہیں ملی۔ جنرل کی مظاہرین کے ساتھ خوشگوار بات چیت ہوئی جنہوں نے اسے اور اس کے اہل خانہ کو شائستگی سے جانے کو کہا۔ سیاسیات کے ماہرین کو اس طرز عمل کو سمجھنے میں مشکل پیش آئے گی جو احتجاج کرنے والی سیاسی جماعت کے کارکنوں کی بیداری، شائستگی اور پرورش کے بارے میں بلند آواز میں بولتا ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید اس واقعہ کے منصوبہ ساز اپنی بربریت کا جواز پیش کرنے کے لیے چند مردہ اور جلی ہوئی لاشوں کی تلاش میں تھے کہ خوش قسمتی سے وہ نہیں مل سکے۔

قدیم یونانی فلسفی سقراط نے اپنے طالب علموں کو سکھایا کہ سچائی کی جستجو صرف اس وقت شروع ہوتی ہے جب کوئی خاص عقیدہ ثبوت، کٹوتیوں اور منطق کے امتحانات میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو، عقیدہ کو نہ صرف رد کیا جانا چاہیے، بلکہ مفکر کو پھر یہ سوال بھی کرنا چاہیے کہ اسے پہلی جگہ غلط معلومات پر یقین کیوں کیا گیا؟

کوئی بھی انسان بغیر تحقیق کے حقیقت کا پتہ نہیں لگا سکتا اس لیے ضروری ہے کہ ہم تحقیق کریں کہ یہ 9 مئی کا سانحہ کیوں کیا گیا؟ اس کی منصوبہ بندی کس نے کی اور کیوں؟ وہ ایسا کرنے کا انتظام کیسے کر سکتے تھے؟ فائدہ اٹھانے والے کون ہیں؟ متاثرین کون ہیں؟ آئی جی پی اور وزیراعلیٰ کا احتساب کیوں نہیں ہوا؟ ہمیں منصفانہ اور کھلے مقدمے کی سماعت کرنے سے پہلے مجرموں کا واضح طور پر پتہ لگانا اور ان کی شناخت کرنی چاہیے۔

اس سانحہ نے ریاستی نظام کو ملک کی سب سے مقبول سیاسی جماعت کے خلاف کھلم کھلا سامنے لایا ہے جس سے ریاست کی بنیادوں کو اتنا نقصان پہنچا ہے جتنا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ یہ واقعہ افسوسناک تھا لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اپنے ہی ٹیکس دہندگان کے خلاف اعلان جنگ کا ردعمل اس سے بھی زیادہ افسوسناک تھا جس نے قومی یکجہتی اور روح کو بری طرح مجروح کیا۔ معاشرہ اور اس کے ادارے پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آتے ہیں اور اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ معاملے کی سنگینی اس بات کو قطعی طور پر ناگزیر بناتی ہے کہ معاملے کی مکمل چھان بین کی جائے اور ذاتی خواہشات پر عمل کرنا اور سیاسی پوائنٹس سکور کرنا بند کیا جائے۔

اب وقت آگیا ہے کہ ریاست اس ناخوشگوار واقعے کے بارے میں غیر معقول وضاحتیں دینا بند کردے اور اگر وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ ایسے سانحات کا اعادہ نہ ہو تو اصل مجرموں کو تلاش کرے۔ بصورت دیگر ناقدین کو اقتدار میں لوگوں کی نیتوں پر شک کرنے کا جواز ملے گا جو بظاہر اسے اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ شاید ایک اور Reichstag آگ؟

 

کسی مسئلے کی تحقیق کرنا درحقیقت اسے حل کرنا ہے۔ ماؤ زی تنگ۔